Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”اچھا ! ابھی ابھی آپ کہہ رہی تھیں میں نانو کے گھر جا کر رہ آؤ تو وہ جھوٹ تھا؟“

”فضول گوئی کیوں کرتی ہے۔ چل ! اتنی دیر سے وضو کر کے آئی ہوئی ہے۔ نماز ادا کر……بلاوجہ کی باتوں میں وقت ضائع کررہی ہے۔“ دادی کو فوری اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ اسے ٹالتے ہوئے گویا ہوئیں۔

”میں آپ کے اس لاڈلے کی ملازم نہیں ہوں جو آپ مجھے سمجھ رہی ہیں۔
“ وہ نماز کی چادر باندھتے ہوئے بدمزاجی سے گویا ہوئی تھی۔

”میں پوچھتی ہوں کس بناء پر تم اتنی اکڑ دکھا رہی ہو؟ ہیں……! دماغ ہی تمہارے آسمان کو چھونے لگے ہیں طغرل کو تم نے سلام تک کرنا بھی گوارانہ کیا۔ اس بچے سے اس طرح چھپتی پھرتی ہو جیسے اسے ”چھوت“ کی بیماری ہو جو اڑ کر تمہیں لگ جائے گی۔“

دادی جان جو اس کاگریز واجتناب بددلی سے براداشت کر رہی تھیں ، کہہ اٹھیں۔
(جاری ہے)

”اگر میں تمہیں کچھ کہہ نہیں رہی ہوں تو اس کا یہ مقصد نہیں کہ تم میرے سر پر چڑھتی چلی جاؤ۔ چھوٹے بڑے کا اداب و لحاظ بھول کر، میں نے تمہاری تربیت ایسی نہیں کی کہ تم گھر آئے لوگوں سے ایسی بد سلوکی کرو……“ابھی دادی کی ڈانٹ پھٹکار جاری تھی معاکھلے دروازے سے دلفریب مہک داخل ہوئی تھی۔ ساتھ ہی بھاری جوتوں کی آواز تو سرعت سے جائے نماز لے کر کمرے سے ملحقہ گیلری کی طرف بڑھ گئی۔
اسے معلوم تھا آنے والا طغرل تھا۔ وہ ہی ایسے ہوش ربا پر فیومز استعمال کرنے کا عادی تھا جو خاصے فاصلے سے اس کی آمد کا پتا دیتے تھے۔ اب بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔ وہ کئی مٹ تک گیلری میں کھڑی یہ سوچتی رہی کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے۔ اس سے قبل وہ کبھی رات کے وقت کمرے میں نہیں آیا تھا۔

”آؤ، آؤ بیٹے! کیا بات ہے ابھی تک سوئے نہیں؟“ طغرل کو دیکھ کر دادی کے چہرے پر مسکراہٹ روشنی بن کر پھیل گئی تھی۔

”نیند نہیں آرہی تھی اس لیے آپ کے پاس چلا آیا۔ آپ پریشان تو نہیں ہو رہی ہیں؟“ وہ ان کے قریب بیٹھ کر بولا۔

”میں اپنے بچے کے آنے سے پریشان کیوں ہوں گی۔ آؤ آرام سے بیٹھ جاؤ۔“ انہو نے پیچھے کھسک کر اسے مزید جگہ دی، ویسے تو اس ڈبل بیڈ پر خاصی جگہ تھی۔ وہ آرام سے بیٹھ ہی نہیں لیٹ بھی سکتا تھا۔ ان کا اسے مزید جگہ دینا اس مثل کو صادق کر رہا تھا کہ اصل گنجائش گھروں میں نہیں دلوں میں ہوتی ہے۔
اگر کسی سے ہم محبت کرتے ہیں، اپنا سمجھتے ہیں تو چھوٹی سی چھونپڑی میں بھی جگہ نکل آتی ہے اور کوئی اگر ہمیں نا پسند ہو تو محل میں بھی چھوٹی سی جگہ نکل نہیں پاتی ہے……یہی چاہت بھرا حال یہاں بھی تھا اور گیلری میں نماز کیلیے کھڑی ہونے والی پری اس کی پذیرائی پر جل کر رہ گئی تھی۔

”اتنے بڑے بیڈ پر آپ تنہا سوتی ہیں دادی جان!“ وہ ان سے مخاطب ہوا مگر اس کی متلاشی نظریں کمرے کا جائزہ لے رہی تھیں۔

”میں تنہا کہاں سوتی ہوں؟ پری سوتی ہے میرے برابر میں۔“

”پری؟ کون سی پری…لال پری، سبز پری یا کالی پری……؟“

”چل ہٹ……! مسخرہ پن مت کر۔ پری یعنی پارس سوتی ہے میرے پاس۔“

”سنا ہے پارس جس کو چھو جائے وہ سونے کا ہو جاتا ہے لیکن یہاں مجھے کوئی ایسی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کا مطلب ہے پارس اصلی نہیں ہے۔“ وہ گیلری میں کھلنے والی کھڑکی سے گلابی آنچل کی جھلک دیکھ چکا تھا۔
وہ سمجھ گیا وہ اس کی وجہ سے وہاں روپوش ہے، سومزے سے گویا ہوا۔

”بال کی کھال نکالناکہاں سے سیکھ لیا تم نے؟“ کیا پارس پتھر سچ مچ ہوتا ہے۔“

”میں کیا جانوں؟ میں نے اپنے بڑوں سے سنا تھا پارس پتھر ہوتا ہے اور جو اسے چھُو لے وہ سونے کا بن جاتا ہے۔“ وہ اس کی باتوں میں آگئی تھیں۔

”آپ نے اپنے بڑوں سے سنا اور یقین کر لیا اور شاید ان محترمہ نے بھی آپ کی سنی سنائی پر یقین کر لیا۔
تب ہی خود کو چھپا کر رکھتی ہیں کہ کوئی انہیں چھو کر سونا نہ بن لے جائے۔“ اسے نے قہقہہ لگاتے ہوئے اس پر طنز کیا تھا۔

”کمینہ! دل تو کر رہا ہے منہ توڑ کر ہاتھ میں دے دوں اس کا۔“ وہ جو نماز پڑھ کر اس کے جانے کے انتظار میں بیٹھ گئی تھی اس کے بے تکلفی سے خود پر کیے جانے والے طنز پرتپ کر بڑ بڑائی تھی۔

”ارے بچے! تو ابھی بھی نہیں سدھرا؟پری سے ابھی بھی تیری چھپڑ خانی ایسی ہی جاری ہے۔
کیا اب بھی تو لڑائیاں لڑے گا؟“

”ہونہہ! کتے کی دم بھی کبھی سیدھی ہوئی ہے جو یہ سدھرے گا؟“ وہ جو اس کی باتیں سن رہی تھی بڑبڑائی تھی۔

”نہیں……نہیں……میری ایسی جرأت کہاں کہ میں پری کی شان میں گستاخی کر سکوں؟“ اگر اس نے جادو کی چھڑی سے مجھے پھول بنا کر اپنے جوڑے میں لگا لیا تو میں مرجھا کر رہ جاؤں گا۔“ اس کے انداز پر دادی ہنس پڑی تھیں جبکہ مارے ضبط پری کا برا حال ہو رہا تھا۔
وہ سمجھ رہی تھی وہ یہ سب بکواس اس لیے کر رہا ہے کہ وہ غصے میں آکر اس کے سامنے چلی جائے اور وہ اس کے سامنے جانا نہیں چاہتی تھی۔ اسے لیے اس کی باتیں سن سن کر گیلی لکڑی کی مانند اندر ہی سلگ رہی تھی۔

”بس اب بہت ہو گیا۔ مت پریشان کرو پری کو……“ دادی کو معلوم تھا وہ کس طرح اندر ہی اندر سلگ رہی ہو گی اسی خیال سے وہ طغرل سے مخاطب ہوئی تھیں۔

”میں تو کسی کو پریشان نہیں کر رہا پھر کمرے میں آپ اور میرے علاو کوئی تیسر اشخص نہیں ہے۔“ وہ بھی اول نمبر کا کائیاں شخص تھا۔

”پری گیلری میں نماز پڑھ رہی ہے۔“ وہ اس کو بتا کر پری سے کہنے لگیں۔

”پری! کیا سورکعت نفل کی نیت باندھ کر کھڑی ہو گئی ہو؟“

”مجھے لگتا ہے دادی جان! شاید ہزاررکعت کی نیت باندھ لی ہے۔“طغرل کو نا معلوم کیوں بہت لطف محسوس ہو رہا تھا۔

”ہیں، ہیں طغرل! یہ چلبلاپن کہاں سے سیکھ لیا بچے!“

”جب وقت بھاری پڑتا ہے تو سب سکھا دیتا ہے۔“ وہ شرارتی انداز میں بولا۔

”اللہ نہ کرے، جو تم پر وقت بھاری پڑے…کیوں اول فول بک رہے ہو۔…؟ چلو جا کر سوؤ۔ زیادہ جاگنے سے دماغ چل گیا ہے تمہارا۔“ وہ تکیہ درست کر کے لیٹتے ہوئے گویا ہوئیں۔

”نیند نہیں آرہی دادی جان! آج ساری رات میں آپ سے باتیں کروں گا۔
“وہ قریب ہی نیم دراز ہو کر بولا۔

”اب میں سوؤں گی اور جاگی تو تہجد کے لیے آنکھ نہیں کھلے گی۔“ انہیں پری پر غصے کے ساتھ ترس بھی آنے لگا تھا۔ بلاوجہ ضد میں طغرل سے چھپ رہی تھی اور جوبات بلا سبب ہو وہ تکلیف کا باعث ہوتی ہے جیسے وہ اس وقت چھوٹی سی گیلری میں قید ہو کر رہ گئی تھی۔ اس کی عادت تھی عشاء کی نماز پڑھتے ہی سونے کی اور اسے نماز ادا کیے خاصا وقت گزر گیا تھا۔

نیند سے اس کی حالت بری ہو رہی تھی۔

”اچھا……کسی اور کی خاطر مجھے آپ بھگا رہی ہیں؟‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔

”ارے نہیں میرے بچے! ایسا نہیں ہے، بس مجھ سے اب جاگا نہیں جاتا ہے۔“ دادی نے جھٹ پٹ اس کی پیشانی چوم کر وضاحت کی تھی۔ اس کو بھی احساس ہوا کہ مذاق ہی مذاق میں وہ اب زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے تو وہ فوراً ہی معذرت کرتا ہو ااٹھ کھڑا ہوا۔

###

وہ ساری رات، سارا دن ایک آزمائش و کشمکش میں بسر ہوا تھا سیل فون اس نے بند کر کے اپنے ملبوسات میں چھپا کر رکھ دیا تھا۔ اس کے اندر جنگ چھڑ گئی تھی۔ ایک طرف اس کی نوزائیدہ محبت تھی دوسری جاب ماں باپ کا اعتماد و تربیت …بچپن سے اسے حالات کی اونچ نیچ سکھائی گئی تھی کہ کسی راہ پر قدم ڈگمگائیں ناں اور وہ راستہ بھٹک کر منزل نہ کھو بیٹھے۔

”میں اپنی رجا ء کو اعلیٰ تعلیم دلواؤں گی۔ ہمارے مذہب میں تعلیم حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ماں کی گود سے قبر کی آغوش تک علم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تعلیم برائیوں سے بچاتی ہے، اچھائیاں سکھاتی ہے۔“امی کی پر یقین آواز اس کی سماعتوں میں کونجنے لگتی تو کبھی ابو کا پر اعتماد لہجہ اس کے ارادوں کو ڈانواں ڈول کر رہا تھا۔

”رجاء بیٹی! جوان بیٹی جب گھر سے باہر جاتی ہے تو اس کے سر پر والدین کی محبت، اعتماد و عزت کا تاج ہوتا ہے جس کی ہر قدم پر، ہر نظر پر حفاظت کرتی ہے، یہ تاج کانچ سے بھی زیادہ نازک اور ہیرے سے بھی بڑھ کر قیمتی ونایاب ہوتا ہے کہ ذرا سی لغزش، معمولی لڑکھڑاہٹ سے گر کر چکنا چُور ہوجاتا ہے اور کانچ ٹوٹ کر جڑتے نہیں ہیں اب یہ ہماری عزت ومان کا تاج تمہارے ہاتھوں میں ہے۔

کالج کا وہ پہلا دن تھا وہ گھر سے نکلنے ولی تھی جب ابو اس سے مخاطب ہوئے تھے۔ اس وقت اس نے کہا تھا کہ وہ جان دے دے گی مگر اس تاج کو ٹھوکر بھی نہ لگنے دے گی۔

آج دو سالوں میں ہی وہ سارے عہد بھول گئی تھی۔ ماں باپ کی برسوں کی محبت، سنی کی نوزائیدہ محبت اس محبت پر بازی لے جانا چاہتی تھی۔

”سنی کی محبت کو مت آزمانا کبھی…وہ بے حد جذباتی ہے، تم نے ذرا بھی اس کے جذبوں کو کچلنے کی کوشش کی تو وہ خود کو نقصان پہنچالے گا۔
وہ محبت کا ترس ہوا ہے۔ وہ تم میں اپنی دنیا دیکھتا ہے۔“ وردہ نے گلوکیر لہجے میں کہا تھا۔

یہ سب آوازیں روتی، چلاتی، مسکراتی، گنگناتی ہوئی آوازیں جو کسی آسیب کی طرح اس کے اندر حشر برپا کر رہی تھیں اور وہ سوچتی سیل فون وردہ کو واپس کر دے اور صاف کہہ دے کہ وہ اس ٹائپ کی لڑکی نہیں ہے جو اپنے والدین کے اعتماد و عزت کا خون کر کے اپنے لیے خوشیاں خریدے۔
وہ کسی منسوب ہو چکی ہے اور اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھائے۔ اس جیسی مذہبی گھرانے کی لڑکی کو یہ زیب نہیں دیتا۔ لیکن پھر اسے یاد آتا کہ سنی نے اگر خود کو کوئی نقصان پہنچالیا۔ اس کی مجبوریوں کو اس نے بے وقافی سمجھا تو وہ کس طرح خود کو معاف کر سکے گی……؟ایک طرف والدین کے اعتماد و عزت کا خون ہونے سے بچاتی تو دوسری طرف سنی اپنی بے وفافی کے خون میں لت پت دکھائی دیتا ہے۔
وہ سوچ رہی تھی کہ کوئی ایسی ترکیب مل جائے جس سے نہ تو والدین کا اعتماد مجروح ہو اور نہ ہی سنی سے جدا ہو سکے۔ ابھی و ہ اسی اُدھیڑ بن میں تھی کہ فون کی آواز سن کر کمرے کی طرف بھاگی تھی۔

###

دادی جان کو نزلہ اور کھانسی ہو گئی تھی۔ وہ ان کے لیے قہوہ بنانے کچن میں آئی اور قہوہ مگ میں ڈالنا چاہتی تھی کہ خوش بو کے زبردست جھونکے نے اسے اپنے حصار میں لے لیا تھا۔
قدموں کی آہٹیں بھی اس طرف آرہی تھیں۔

”اف خدایا! یہ یہاں کیوں آرہا ہے؟“ اس نے گھبراہٹ میں مگ کاؤنٹر پر رکھا اور خود کاؤنٹر کے دوسری طرف بیٹھ گئی تھی۔ اسی وقت طغرل کچن میں داخل ہوا تھا۔

”اوہ……! ابھی تو محسوس ہو رہا تھا یہاں کوئی ہے۔“ وہ کچن میں نگاہیں دوڑاتا اونچے لہجے میں بولا تھا۔

مگر یہاں تو کوئی نہیں ہے، چلنا چاہیے۔
“ وہ خود کلامی میں کہہ رہا تھا۔ دوسرے لمحے اس کے جاتے قدموں کی آوازیں دور ہوئیں تو یہ یقین کرنے کے بعد کہ وہ چلا گیا ہے، پری کاؤنٹر کے پیچھے سے نکل آئی تھی۔ وہ سمجھ گئی تھی وہ اسے تنگ کرنے کے لیے ایسی حرکتیں کر رہا ہے مگر وہ ہار مانے والی نہیں تھی۔ وہ سوچتی ہوئی آگے بڑھی تھی پھر حیرت سے وہ ساگت رہ گئی۔ طغرل سینے پر بازولپیٹے اطمینان سے کھڑا تھا کچن کے درمیان میں۔

   2
0 Comments